better light a candle than curse the darkness

BaKhabar, Vol 4, Issue 3, March 2011
Page-1 Page-2 | Page-3 | Page-4 | Page-5 | Page-7 | Page-8 | Page-9 | BaKhabar  Download pdf of this Issue Download pdf (2.2 mb)
 Prposed Amendment in the Enemy Property Act
دشمن جائیداد  کے بارے میں مجوزہ ترمیمی قانون کے سلسلے میں چند قابل غور پہلو


ڈاکٹر ظفرالاسلام خان
ایڈیٹر ملی گزٹ


’’
دشمن جائداد قانون‘‘ Enemy Property Act 1968،  اگست ۱۹۶۸ میں  لاگو ہوا۔ اصل میں ۱۹۶۵میں پاکستان سے جنگ کے پس منظر میں Defence of India Rules 1971 کے تحت بنے Custodian of Enemy Property کے سلسلے میں اس ایکٹ کو لایا گیا تھا۔ یہ ایکٹ ایک عبوری قانون تھا اور ایک خاص مقصد کے لئے بنا تھا جو اصل مالک (یا اس کے وارث) کو اس کے حق سے محروم نہیں کرتا اورگورنمنٹ کو اس کا مالک نہیں بناتا۔ تاہم Custodian of Enemy Propertyکے محکمہ میں زبردست دھاندلیاں اور بے اعتدالیاں ہیں جن کے باعث عملاًاصل مالکوں سے زیادہ اسے اختیار ملے ہوئے ہیں۔ یاد رہے کہ کیمبریج یونیورسٹی کے پروفیسر جیا چیٹرجی کا کہنا ہے کہ یہ شعبہ بدعنوانیوں اور بے ایمانیوں کا گڑھ ہے۔


۱۵ نومبر ۲۰۱۰ میں لوک سبھا میں ایک ترمیمی بل بعنوان The Enemy Property (Second Bill, 2010) (Bill No. 126 of 2010) Amendment and Validatorکے ذریعہ مذکورہ ایکٹ کا حلیہ ہی بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے:
Hand-in-Hand with the Enemy
مذکورہ بالا ایکٹ (ملاحظہ ہو سیکشن نمبر ۸) کا مقصد تھا کہ’’ دشمن‘‘ کی جائداد کا تحفظ اورنظم و انصرام کیا جائے۔سیکشن ۲ (B) میں’’دشمن‘‘ Enemy کی جو تعریف کی گئی ہے اس کے مطابق ہندوستان کا کوئی باشندہ اس میں نہیں آتا۔موجودہ Enemy Property Amendment Bill بنیادی طور پر اس ایکٹ کی اساس کو ہی بدلنا چاہتاہے۔ اس سے ۱۹۷۵، ۱۹۷۶، ۱۹۸۱ اور ۱۹۹۱ میں دیے گئے کلکتہ ہائی کورٹ کے فیصلوں کی نفی ہوجاتی ہے۔ وہ درخواست گزار جو اپنی جائدادوں کے دہائیوں سے مالک چلے آرہے ہیں ، وہ بغیر کسی واضح وجہ کے ان سے محروم ہوجائیں گے۔ اہم پہلو یہ ہے کہ مذکورہ ایکٹ کے سیکشن (۲) میں ترمیم نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ انڈیا کے کسی باشندہ پر لاگو نہیں ہوتا۔ ترمیم کے لئے جو بل پیش کیا گیا ہے وہ ایکٹ کے سیکشن (۵) میں ترمیم کرنا چاہتاہے اور ایک ذیلی شق (۳) کے ذریعہ چاہتا ہے کہ جائداد کی ملکیت Custodian کو دیدی جائے۔ اس سے معزز سپریم کورٹ کیے فیصلہ کی نفی ہوتی ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ باوجود اس کے کہ (۱) دشمن شہریت بدل جانے سے دشمن نہیں رہا، یا (۲) اس کا قانونی وارث ایک ہندوستانی ہے، یا (۳) وہ دشمن ملک کا باشندہ نہیں پھر بھی جائداد Custodian کے ہاتھ میں رہے گی اور اسے اس سے تمام فائدے اور حقوق حاصل ہوں گے۔

یو ں تو مذکورہ ایکٹ کا سیکشن نمبر ۱۰ ہی Custodian کو جائداد کے فروخت کا سرٹیفیکیٹ جاری کرنے کا حق، رجسٹریشن کا حق وغیرہ سارے اختیارات اس حد تک دیتا ہے کہ اصل مالکین کے اختیارات کی نفی ہوجاتی ہے۔ اس کے باوجود ترمیمی بل یہ چاہتا ہے کہ Custodian کو ویسا ہی قانونی اختیار دیا جائے جو سِول کورٹ کو حاصل ہوتاہے۔ اس کی رو سے وہ (۱) دستاویزات کی تلاش و معائنہ (۲حسابات وغیرہ کی تیاری (۳) دستاویزات کے معائنہ کے لئے کمیشن بھیجنے (۴گواہوں کی حاضری اور حلف لیتے وقت ان کے جائزہ کے اختیار کا مالک بن جائے گا۔

indian-parliament
ترمیمی بل کے سیکشن ۱۸ میں واضح طور پر توسیع کی گئی ہے اور یہ اضافہ کرنے کی تجویز ہے کہ: (۱) وارث کو کورٹ کے ذریعہ اپنی قانونی ملکیت ثابت کرنی ہوگی۔ (۲) اس دفعہ کا اضافہ کیاگیا ہے کہ جائداد سے وارث کو جوبھی آمدنی ملتی ہے وہ اُسے مرکزی حکو مت کی ایماء کے بغیر نہ ملے گی۔ سیکشن ۱۸ (C) کا تعارف مرکزی حکومت کو جائداد کی خرید و فروخت کا مطلقا اختیار دیتا ہے، جس میں کوئی تحفظات بھی نہیں دیے گئے۔ تقریباً اسی طرح کی قابلِ اعتراض ترمیمیں سیکشن ۲۶ میں بھی تجویز کی گئی ہیں۔
 
قابلِ ذکر یہ ہے کہ آر۔ایس۔ایس نے اس سلسلہ میں ایک کانفرنس منعقد کی ہے، اور باقاعدہ مہم چلاکر وہ وزرات داخلہ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کو ہزاروں خطوط بھیج رہی ہے کہ اس قانون کو زیادہ سے زیادہ سخت بنا دیا جائے تاکہ مسلمانان ہند کو کوئی بھی فائدہ اس سے نہ پہنچنے پائے۔

اگر یہ ترمیمی بل پاس کر دیاگیا تو اس قانون کے نفاذ کے بعد کوئی بھی شخص ’’دشمن جائداد‘‘ Enemy Property کے سلسلہ میں کسی بھی قانونی کارروائی کرنے کے حق سے محروم کردیاجائے گا اور ہندوستان کا باشندہ ہونے کے باوجود حق وراثت اور حق ہبہ وغیرہ سے متعلق معاملات کو کسی عدالت میں نہیں لاسکے گا۔

یہ جارحانہ اور ظالمانہ قانون دراصل عدالت علیا یعنی سپریم کورٹ کے فیصلے اور دیگر ہائی کورٹوں کے فیصلوں کو انتظامیہ کے ذریعے کا لعدم کرنے کی ایک مذموم حرکت ہے اور ساتھ ہی ماضی میں ہوئی بددیانتی اور بے ایمانی پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے۔ خدانہ کردہ اگر یہ مجوزہ قانون باقاعدہ قانون کی شکل اختیار کرلیتا ہے تو اس سے بد عنوانیوں اور بی ایمانیوں کے ایک عظیم سلسلے کا آغاز ہوجائے گا۔Enemy Property Act 1968 کو بنے ہوئے بیالیس سال ہوگئے اور اب (۴۲) بیالیس برس کے بعد اس ایکٹ کے ترمیم کرنے کی کیوں ضرورت محسوس کی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ ’’سپریم کورٹ‘‘ میں راجہ محمود ابادکے حق میں فیصلے کے بعد بہت سے لوگوں کو عدالت سے انصاف ملنے کی امیدیں بڑھیں۔ یہ مجوزہ قانون ان سب لوگوں کی محنتوں اور حقوق کو رائگاں کرنے اور ان کی جائدادوں کو ہڑپنے کے ارادے سے لوک سبھا میں لایا گیا ہے۔

یہ مجوزہ قانون نہ صرف ہندوستان کے مسلمانوں کو نشانہ بنا کر ان کے حقوق سے انھیں محروم رکھنا چاہتاہے بلکہ اس قانون کے نفاذ کے بعد کوئی شخص عدالت میں اس معاملے (یعنی Enemy Property )کے سلسلے میں قانونی کارروائی کرنے کے حق سے بھی محروم کردیا جائے گا اور ہندوستان کا باشندہ ہونے کے باوجود حق وراثت اور حق ہبہ وغیرہ کے قوانین کسی عدالت میں نہیں لا سکے گا۔ اس نفاذ کے بعد ایک ایسی نظیربن جائے گی کہ کسی وقت بھی ملک کی سا لمیت و تحفظ کا بہانہ بناکر مسلمانان ہند کے لئے پریشان کن قوانین بنائے جانے کا جوزبن جائے گا۔

اس مجوزہ قانون کے تحت بظاہر راجہ محموداباد کے لئے ذاتی طور پر کچھ رعایتیں رکھی گئیں ہیں لیکن غریب اور بیکس مسلمانوں کے لئے زحمتوں اور مشاکل کے ایک نئے باب کا آغاز بھی اس میں پوری طرح مضمر ہے۔
اس مجوزہ قانون کو پارلیمنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے امور داخلہ کے حوالہ کر دیا گیا جس کے سربراہ جناب ونکیا نائڈو (ممبر راجیہ سبھا ۔بی جے پیہیں۔ اس کمیٹی نے عوام سے درخواست کی ہے کہ تحریری طور پر اپنی رائے اور اعتراضات سے اُسے ۱۵ مارچ ۲۰۱۱ تک مندرجہ ذیل پتہ پر باخبر کریں:

Shri D.K. Mishra
Jt. Director, Rajya Sabha Secretariat
Room #142, 1st Floor, Parliament House Annex, New Delhi- 1
Tel: 011-23035410, Fax: 011-23012007
Email: 
rsc-ha@sansad.nic.in, Website: http://rajyasabha.nic.in

مذکورہ بل کا مسودہ راجیہ سبھا کی ویب سائٹ http://rajyasabha.nic.in پر موجود ہے۔ یہ ساری  تفصیلات ملی گزٹ کی وبسایٹ : www.milligazette.com پر موجود ہیں ۔

 Inside Parliamenttop

RELATIONSHIP IN THE NATURE OF MARRIAGE: HOW  REALISTIC  TO  ZOOM

... by MD. EHSAN (freelance writer), Bairiya, P.O.: Kolhua Paigambarpur, Distt: Muzaffarpur, 843108.

live-in and infidelity breaking the institution of marraige
Every religion advises us to avoid vices and acquire virtues according to the need of the society and circumstances in which one lives.

Marriage: “I will always be here for you.”
Cohabiters: “I will be here only as long as the relationship meets my needs.”

Nowadays, materialistic view and infinite expectation drives the wave that is precipitating the marriage institution. Young generation believes in freedom without responsibilities and boundaries. Men and women are hesitating to marry. They are feeling easy and comfortable in the new institution of ‘live-in relationship’ without knowing that however deep is love but without sacrifice and responsibility it loses its entity.
Our Indian court has renamed ‘Live-in relationship’ as ‘relationship in the nature of marriage’. Western culture has launched this product in their petty self-interest, and we are blindly adopting it. How realistic it is? Today capital becomes a relation and it is forced in the society in a planned way. We have forgotten our ethical value. Because of this it is said that nowadays a child is born adult by birth.  
top
Concept behind live-in relationship:
Nature has created different species for different purposes. Nothing is identical here; each being has its own value. We are crying for unnatural equality, why? Never can
we eat through eyes and drink through ear! This is the reality of nature. Women are women.
A free State grants both rights as well as duties. Live-in relationship shows only blind freedom for a while and no duties, no responsibility. This is a capitalist force that is exploiting women’s body and charm for advertisements and other petty gains. On internet, magazines, T.V., films etc. women are used as instruments of customer satisfaction. Women become piece of decoration in offices as receptionist or ‘Personal’ Assistants.
When Mrs. Obama arrived in India, media has zoomed-in on her body, dressing, fashion style etc. Women expose themselves to arouse sensual pleasure. The rough words like sexy, bimbos, are praises for them. It is not only affecting adults but even children.                                                          
top
Commitment? What Commitment?
Pornography is a symbol of success for economic imperialism and it all revolves around women. Women are suffering from slimming mania. A lot of new pathy are obtained to get a dream body for a girl or women. They are:
Abdominoplasty – for stomach, Blepharoplasty – for eyebrow, Breast implant Mastopexy – for breasts, Butt implant – for butt, Rhinoplasty – for nose, Octoplasty – for eyes, Rhytidectomy – for face, Bariatic surgery – for intestine, Browplasty – for brow, Chin implant – for chin, Vaginoplasty – for vagina, besides Body tattoos and what not!
These cause metabolic disorders; women are suffering from depression; they use anxiety drugs. Depression leads to suicide. Live-in relationship has actually made women a disposable commodity for use and throw. This is a question for introspection. Does our conscience allow this?                              
top
What is in Islam? Islam believes in equality of men and women – and ‘Equality’ does not mean ‘uniformity’, the role of a man and woman is complimentary, it is not competitive.

The Qur’an says: “Nor come near to adultery for it is a shameful (deed) and an evil way.” (17:32)
Marry them, then, with their people’s leave, and give them their dowers in an equitable manner – they being women who give themselves in honest wedlock, not in fornication, nor as secret love companions...” (4:25)
We also sent Lot: He said to his people: “Do you commit lewdness such as no people in creation committed before you?” (7:80)
(O Men) verily, with lust you approach men instead of women: nay, but you are people given to excesses!” (7:81)
In U.S. divorce rate is between 40 to 50%. On the other hand, the marriage rate is on a steady decline: a 50% drop since 1970 from 76.5% to 39.9% implying that more and more people have an extramarital relationship.
“Cohabitation is here to stay”, says an expert warning that “I don’t think its good news, especially for children”, he says. “As society shifts from marriage to cohabitation – which is what’s happening 
you have an increase in family instability.” Cohabiting couples have twice the break-up rate of married couples, the report’s authors say.
In short marriage is an acceptable solution to all these grievances. Marriage in Islam means not only bonding man and woman socially but also taking responsibility, sacrifice, understanding, agreement and affection.

A live-in relationship is a walk-in and walk-out relationship. There are no strings attached to this relationship nor does this relationship create any legal bond between the partners,” Justice S N Dhingra, Delhi HC
6
Home | About Us | Objective | Scholarship | Matrimonial | Video Library | Projects | Quran Resources | Lend a hand
Copyright © 2008 Bihar Anjuman